دوستو! صرف بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت نہیں، بلکے موت ایک وجودی شے ہے جس طرح زندگی خود ایک چیز ہے اسی طرح موت خود ایک چیز ہے۔ اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے الذی خلق الموت والحیات (سورۃ ملک)
یہاں سے پتہ چلا کہ موت عدمی شے نہیں وجودی شے ہے۔
جب یہ صفت (موت) بندہ مومن کو عارض ہو جائے تو اس سے مراد فنا نہیں ہے، کہ بندہ بالکل فنا ہو گیا ہے، موت فنائے محض کا نام نہیں۔
علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ آپ عمدۃ القاری شرح بخاری چھٹی جلد میں لکھتے ہیں کہ موت فنا کا نام نہیں بلکہ موت تو ایسی صفت ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیتی ہے۔
جسم سے روح جدا ہو جائے تو اس کو جس پر موت وارد ہوئی، بالکل فنا سمجھنا یہ کافروں کا عقیدہ ہے۔ قرآن کہتا ہے:
اور یہ لوگ (کافر) کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کیے جائیں گے۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت 49)
جب یہ سمجھے تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام پر وفات شریف وارد ہوئی، کل نفس ذائقۃ الموت کا وعدہ سچا ہوا، آپکے لیے جس قسم کی وفات میرے رب نے مقرر فرمائی تھی اس کا ورد آپ پر ہوا، اور آپ نے عالم دنیا کی طرف سے عالم برزخ کی طرف انتقال فرمایا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپکی قبر مبارک کے اندر حیات حقیقی، جسمانی دائمی زندگی کے ساتھ اللہ نے آپکو آپکی قبر مبارک کے اندر زندگی عطا فرمادی۔
اس پر پوری امت مسلمہ کااجماع ہے۔ وہاں پر آپکی حِس بھی ہے، آپکا ادراک بھی ہے، آپ سنتےبھی ہیں، آپ سمجھتے بھی ہیں اور آپ جواب بھی دے سکتے ہیں۔
*دلیل نمبر 1:*
یہ دلیل بطریق قیاس اولیٰ ہے، ادنیٰ سے اعلیٰ پر قیاس اور اہل ِ منطق کی اصطلاح میں یہ قطعی الثبوت ہوتا ہے۔
قرآن: ولا تقو لو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات،
جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے اُسے مرُدہ مت کہو۔
اگرچہ یہ آیت شھداء کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن علماء امت نے اس آیت کریمہ کے تحت یہ استدلال بھی کیا ہے کہ;
سید الانبیاء بھی شہید ہیں۔
دلیل 1: اللہ پاک نے سورۃ النسا آیت 69 میں انعام یافتہ لوگوں کے چار گروہ بیان کیے ہیں:
پہلا گروہ، انبیاء کا،
دوسرا صدیقین کا،
تیسرا شھداء کا اور
چوتھا صالحین کا۔
اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیاء ہر لحاظ سے شہدا سے افضل و اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ شھدا کا گروہ جو کہ ادنیٰ درجے میں ہے ان کے لیے جب حیات ثابت ہے تو انبیاء کرام جو کہ اعلیٰ گروہ میں شامل ہیں ان کے لیے بدرجہ اولیٰ حیات ثابت ہے۔ اسی طرح شہدا کو مردہ کہنا منع ہے تو انبیاء کرام کو بھی مردہ کہنا منع ہے۔
بڑے سے بڑے گناہ کو سوچنے سے گناہ نہیں لکھا جاتا، شہید کی زندگی کا اتنا سخت معاملہ ہے کہ ، شہید کو مُردہ سوچو بھی مت۔ لا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا بل احیا ء عند ربھم یرزقون۔ یہ کیسی حیات ہے کہ اُسے رزق بھی ملتا ہے۔
اس کا جواب بھی دے دیا، بل احیاء و لکن لا تشعرون۔
انھیں میں نے زندگے عطا کر رکھی ہے جس کا تمھیں شعور نہیں۔
بس استدلال سنئے، شہید کون؟ جو اپنے نبی کے دین کےلیے اپنی جان قربان کردے، تو شہید کےلیے یہ حُکم ہے کہ اُسے مردہ کہنا منع، مردہ سوچنا منع اور اُسکی زندگی تیرے شعور و ادراک میں سمانےوالی نہیں۔ اور شہید تیسرے نمبر کی عظمت والی ہستی ہے۔ پہلے نمبر پر نبی دوسرے پر صدیق تیسرے پر شہید۔تو جب شہید کو مُردہ کہنا منع ہے تو نبی کو مُردہ کیسے کہہ سکتے ہو؟
اور یہ بھی واضح کر دوں کہ ختم نبوت کے انکار کی پہلی سیڑھی حیا ت النبی کا انکار ہے۔ مرزے نے مسیح مثیل بننا تھا اس نے سب سے پہلے حیات مسیح کا انکار کیا ، کیونکہ اُسکو پتہ تھا کہ میں زندہ مانوں تو بن نہیں سکتا ، اس لیے اس نے سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیا ت کا انکار کیا ۔ جو عیسیٰ کی حیات کا انکار کرے وہ پکا کافر ہے تو جو عیسیٰ علیہ السلام کے امام کی حیات کا انکار کرے وہ لعنتی کیوں نہیں؟
جب نبی ہے ہی زندہ تو کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کے آنےکی ضرورت ہی کیا ہے؟
دلیل نمبر 2: سورہ نساء آیت 64:
ولو انھم اذ ظلمو انفسھم جاءوک فا ستغفر اللہ واستغفر لھم الرسول لوجدا للہ توا با رحیما۔
اوراگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمھارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان پائیں۔
امتیوں کا آپکی بارگاہ میں آنا اور مغفرت کروانا یہ جب ہی ہو سکتا ہےکہ جب سرکار اپنی قبر انور میں زندہ ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ حکم صرف اس وقت تک تھا، نہیں بلکہ قیامت تک کا ہے۔
شیخ ابو منصور اپنی مشہور کتاب الشامل میں عتبی سے ر روایت کرتےہیں آپ فرماتے ہیں کہ میں سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفا ت اقدس کے بعد آپکی قبر انور کے پاس بیٹھا تھا ایک اعرابی روضہ اقدس پر حاضر ہوا اور عرض کی;
السلام علیک یا رسول اللہ
میں نے قرآن پاک کی ایک آیت سنی ہے، ولو انھم اذ ظلمو۔۔۔ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حا ضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے:
اے ان سب سے افضل ترین ہستی جن کے جسد خاکی کو اس سرزمین میں دفن کیا گیا ہے۔ جنکی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک اٹھے۔ میری جان اس قبر پر قربان ہو جس میں آپ محو استراحت ہیں۔ اسی میں پارسائی ہے اور اسی میں جودو سخا ہے۔
عتبی فرماتےہیں کہ یہ شعر کہنے کے بعد اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھےنیند آ گئی۔ میں نے خواب میں نبی پاک کی زیارت کی کہ آپ فرما رہے تھے کہ اے عتبی! جاؤ اعرابی کو خوشخبری دے دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔
📗 (تفسیر ابن کثیر جلد 1 سوررہ نساء، زیر آیت ، ولو انھم اذ۔۔)
اس سے ثابت ہوا کہ نبی کا فیضان قیامت تک ہے۔
*●┈•••ثواب کی نیت سے اپنے تمام گروپس میں شیئر کیجئے●┈•••*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*🌹🌹صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!🌹🌹*
*🌹صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد🌹*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ 🌹 منجـــــانبــــــــــ☜⇩⇩🌹
*عـــلـــــمـــــی تـــحــریـــر*