*علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ*
*نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچ ہیں*
*کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری*
*آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری*....
*مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو*
*نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے*
*تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو*
*اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں*
*زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے*
*ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی*
*سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے*
*خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے*
*لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے*
*ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے*
*تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں*
*تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے*
*کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے*
*ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے*
*کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں*
*کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جاۓ زمیں پر نشاں*
*پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ*
*وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ*
*نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے*
*کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ*
*اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے*
*ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا*
*دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح*
*اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آۓ فلاں اور فلاں*...
*خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر*
*نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر*
*مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا*....
*اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا*......
طالبِ دعا "ی